سر وادئ سینا فیض احمد فیض.
پھر برق فرو زاں ہے سر وادئ سینا پھر رنگ پہ ہے شعلۂ ر خسار حقییقت.
پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت اے دیدۂ بینا.
اب وقت ہے دیدار کا ، دم ہے کہ نہیں ہے اب دشمن جاں چارہ گر کلفت غم ہے.
گلزار ارم پر تو صحراےٴ عدم ہے پندار جنوں.
حوصلہٴ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے پھر برق فروزاں ہے سر وادیٴ سینا.
اے دیدۂ بینا پھر دل کو مصفا کرو ، اس لوح پہ شا ید.
مابین من و تو نیا پیماں کویٴ اترے اب رسم ستم حکمت خاصان زمین ہے.
تایئد ستم مصلحت مفتی ٴ دیں ہے اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے.
لازم ہے کہ انکار کا فرمان کویٴ اترے سنو کہ شاید یہ نوُرِ صیقل.
صحیفےکا حرفِ اوّل ہےاُس جو ہر کس و نا کسِ زمیں پر.
دلِ گدایانِ اجمعیں پر اُتر رہا ہے فلک سے اب کے.
سنو کہ اس حرفِ لم یزل کے ہمی تمہی بندگانِ بےبس.
علیم بھی ہیں ، خبیر بھی ہیں سنو کہ ہم بے زباں و بے کس.
بشیر بھی ہیں ، نذیر بھی ہیں اور ہر ایک اولو لامرکو صدا دو کہ.
اپنی فردِ عمل سنبھالے اٹھے گا جب جمِ سرفروشاں.
پڑیں گے دار و رسن کے لالے کوئ نہ ہو گا کہ جو بچا لے.
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی یہیں عذاب و ثواب ہو گا.
یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر یہیں پہ روزِ حساب ہوگا.